توحید باری تعالیٰ

 

توحید باری تعالیٰ 

     الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنتَوَكَّلْ عَلَيْهِ، وَنَعُذ باللّہ من شرورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِله فَلا هَادِى لَہ ، و نشھد ان لّا الٰہ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَنشْهَدُ أَنَّ سَیدَنَا وَسَنَدَنَا وَنبَيَّنَا وَحَبیبنَا وَمَوْلَانَا مُحمداً عبدہ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا ۔

   أَمَّا بَعْد! فأعوذ باللّٰہ مِن الشَّيْطٰنِ الرَّجيمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔

  (هو اللّه الذى لا إله إلّا هو، عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرحيم)

آمنتُ باللّه صدق اللّه مَوْلانَا العَظِيمُ، وَصَدَقَ رَسُولُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيمُ، وَنَحْنُ عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ وَالشَّاكِرِينَ، والحمد للّہِ ربِّ الْعَالَمِينَ ۔



بزرگان محترم اور برادران عزیز! آج کی محفل میں ہمیں اسلام کے سب سے بنیادی عقیدے یعنی توحید کے بارے میں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ، ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کی بنیاد کلمہ توحید پر ہے، جو شخص بھی اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے، وہ کلمہ توحید پڑھ کر یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کر کے داخل ہوتا ہے، اس کلمہ توحید کی انقلابی حیثیت بھی ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ اور اس کا یہ عجیب نتیجہ بھی کہ اس ایک کلمہ کو پڑھ لینے کے بعد انسان کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہو جاتا ہے، یعنی جوشخص کہ اس کلمہ کے پڑھنے سے پہلے کافر تھا ، وہ اس کلمہ کے پڑھ لینے کے بعد مسلمان ہو جاتا ہے، پہلے جو شخص اللہ تعالیٰ کا مبغوض تھا، اس کلمہ کے پڑھنے کے بعد اللہ تعالی کا محبوب بن جاتا ہے، پہلے جو شخص جہنم اور دوزخ کا مستحق تھا، اس کلمہ کے پڑھنے کے بعد جنت کا اور اللہ کی رحمتوں کا سزاوار بن جاتا ہے، اور اگر میں یہ کہوں تو اس میں مبالغہ نہی ہوگاکہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو انسان کو ایک ہی لمحہ میں جہنم کے ساتویں طبقے سے نکال کر جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجے میں  داخل کر دیتا ہے اور یہ کوئی شاعرانہ  مبالغہ  نہیں، بلکہ ایک نا قابلِ انکار واقعہ ہے، جس کی بے شمار مثالیں تاریخ اسلام میں ملتی ہیں۔


 ذر اسی تشریح کے لئے ایک واقعہ آپ حضرات کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ، غزوہ خیبر کا واقعہ جس میں نبی کریم سرکار دو عالمﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے ساتھ یہودیوں کے سب سے بڑے قلعے پر حملہ آور ہوے تھے، اور وہاں کا محاصر کیا تھا کیونکہ ان یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاتی تھیں، نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ نے جب اس قلعے کا محاصرہ کیا تو یہ محاصرہ کئی روز تک جاری رہا۔


اس محاصرہ کے دوران خیبر کے شہر کا ایک چرواہا جس کا نام تاریخ میں اسود راعی ہے، وہ ایک روز اپنے شہر سے باہر نکلا ، اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں ذرا یہ معلوم کروں کہ یہ محمد رسول اللہ  جو اتنا بڑا لشکر لے کر اتنا بڑا فاصلہ طے کر کے اور مشقتیں اٹھا کر اس خیبر پر حملہ آور ہو رہے ہیں ان کی بنیادی دعوت کیا ہے؟ اور ان کا پیغام کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ یہ معلوم کرنے کی غرض سے وہ چرواہا باہر گیا، اور مسلمانوں کے پڑاؤ کی طرف بڑھا، مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ، اس سے اس نے پوچھا کہ میں یہ جانا چاہتا ہوں کہ تم لوگ خیبر پر حملہ کرنے کے لئے کیوں آئے ہو؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے شہر کے رہنے والے تمہارے دشمن ہیں؟ اور تمہاری بنیادی دعوت اور تمہارا بنیادی پیغام کیا ہے؟ وہ ایک صحابی تھے، انہوں نے خود اسلام کے عقائد کی تشریح کرنے کے بجائے اسود چرواہے   سے کہا کہ تم ہمارے سردار یعنی محمد رسول اللہ ﷺسے جا کر خود مل لو، اور انہی سے یہ سوال کرو وہ جواب میں تمہیں تفصیل کے ساتھ اپنی بنیادی دعوت اور پیغام بتا دیں گے۔


 اسود راعی کے لئے یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی اس لئے کہ وہ کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کسی لشکر کا سپہ سالار، کسی فوج کا بڑا افسر یا کسی مملکت کا فرمانروا، اسے بنفس نفیس اپنے دربار میں حاضر کرے اور باریابی کا شرف بخشے، وہ تو ساری عمر یہ دیکھتا آیا تھا کہ وہ تو ایک چرواہا ہے، جس کے ساتھ کوئی بھی معزز انسان ، کوئی بھی دولت مند انسان کوئی بھی صاحبِ منصب انسان بات کرنے کو بھی ذلت اور حقارت سمجھتا ہے۔


 اس لئے اسود راعی نے کہا کہ میں تمہارے سردار کے پاس کیسے جا سکتا ہوں، جبکہ وہ تمہاری مملکت کے فرمانروا ہیں تمہاری فوج کے سپہ سالار ہیں، اور میں ایک ادنی چرواہا ہوں ۔ ان صحابی نے جواب میں کہا کہ ہمارے سردار نبی کریم سرکار دو عال محمد مصطفی ﷺ ہم غریبوں کے انتہائی ہمدرد اور غمگسار ہیں، اور ان کی بزم اور محفل میں غریب وامیر کے درمیان ، حاکم محکوم کے درمیان او ر راعی و رعیت کے درمیان کوئی فرق، امتیاز نہیں ہوتا۔ وہ حیرانی کے عالم میں نبی کریم مریم کی طرف بڑھا، اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ڈرتے ڈرتے یہ سوال کیا کہ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی بنیادی دعوت کیا ہے؟ اور آپ کیوں اس جگہ پر تشریف لائے؟


نبی کریم ﷺ نے جواب میں مختصراً اس کو عقیدہ توحید سمجھایا ، اور یہ بتایا کہ ہم بار بار اس عقیدے کی وضاحت کر چکے ہیں، اسود راعی نے جب اس عقیدہ توحید کی تشریح سنی تو نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اس عقیدہ کا قائل ہو جائے ، اور آپ کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس عقیدہ کو قبول کر لو، اور اسلام کے دائرے میں داخل ہو جاؤ تو تم ہمارے بھائی ہوگے، ہم تمہیں اپنے سینے سے لگائیں گے، اور تمہیں وہی حقوق حاصل ہونگے جو تمام مسلمانوں کو حاصل ہیں۔


اسود راعی نے بڑی حیرانی کے عالم میں کہا کہ مجھے کیسے وہ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ میں ایک معمولی درجے کا چرواہا ہوں ، میرا رنگ سیاہ ہے، میں سیاہ فام ہوں، میرے جسم سے بدبو اٹھ رہی ہے، میرے جسم پر میل کچیل جمع ہے، ایسی حالت میں آپ لوگ مجھے کیسے سینے سے لگائیں گے؟ اور مجھے اپنے برابر کا درجہ اور مقام کیسے دیں گے؟ نبی کریم ﷺ نے اسے یقین دلایا تو اس نے کہا کہ اگر یہ واقعہ ہے کہ آپ مجھے اپنے برابر حقوق دینے کے لئے تیار ہیں ، اور آپ کے اس عقیدۂ توحید کے پیغام میں بھی اتنی کشش ہے کہ میں اپنے دل میں اس کی طرف ایک غیر معمولی انسیت محسوس کر رہا ہوں ، میں  اتنی بات اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ میری اس سیاہ فامی اور میرے جسم کے میل کچیل اور بدبو کا کیا علاج ہوگا؟


 نبی کریم ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اگر تم اس عقیدۂ توحید کو قبول کر لو تو چاہے دنیا میں تمہارے اس چہرے کی سیاہی کا کوئی علاج نہ ہو سکے لیکن جب آخرت میں تم اٹھائے جاؤ گے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اس چہرے کی سیاہی کو نور سے بدل دے گا، اور تمہارے جسم کی بدبو کو خوشبو سے بدل دے گا ، اس نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ یہ کہہ کر مسلمان ہو گیا ۔ پھر پوچھا کہ اب مجھے بتائیے کہ میرے ذمے کیا فریضہ عائد ہوتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یوں تو اسلام کے بہت سے فرائض ہیں لیکن اس وقت نہ تو نماز کا وقت ہے کہ تمہیں نماز کا حکم دیا جائے ، نہ روزہ کا مہینہ ہے کہ روزہ رکھوایا جائے ، نہ زکوۃ تم پر واجب ہے کہ تم سے زکوۃ دلوائی جائے ، نہ حج کا موسم ۔ ہے کہ تم سے حج کرایا جائے ، اس وقت تو ایک ہی عبادت اللہ کے لئے انجام دی جا رہی ہے، وہ یہ کہ خیبر کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ برپا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں دینِ اسلام کے جان نثار اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اس وقت تو تمہارا فریضہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو جاؤ ۔ اسودراعی نے کہا کہ اگرمیں اس جہاد میں شہید ہو گیا تو میرا انجام کیا ہو گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا  ہوں کہ اگر جہاد میں شہید ہوئے تو اللہ تبارک وتعالی تمہیں سیدھا جنت الفردوس میں پہنچائے  گا؟ تمہارے چہرے کی سیاہی نور سے تبدیل ہو جائے گی تمہارے جسم سے بدبو کے بجائے خوشبو ئیں مہکیں گی، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں ۔


یہ سن کر اسود راعی نے بکریوں کو شہر کی طرف ہنکا یا اور  لشکر اسلام میں شامل ہو گیا، لڑائی کافی دیر تک جاری رہی ، جب جنگ کا اختتام ہو گیا،اور خیبر فتح ہوگیا  اور نبی کریم علیہ السلام شہدا کی لاشوں کا معائنہ کرنے کے لئے نکلے، تو انہیں لاشوں میں سے ایک لاش اسود راعی کی بھی تھی، جب وہ آپ کی خدمت میں لائی گئی تو آپ کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے ، اور آپ نے فرمایا کہ یہ  عجیب و غریب شخص ہے، یہ ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی ایک سجدہ نہیں کیا، یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی ایک پیسہ خرچ نہیں کیا، یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی اور عبادت انجام نہیں دی، لیکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ شخص سیدھا جنت الفردوس میں پہنچ گیا ہے، اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے چہرے کی سیاہی کو نور سے بدل دیا ہے، اس کے جسم کی بدبو اور میل کچیل کو خوشو سے مہکا دیا گیا ہے ۔


 یہ جو میں نے عرض کیا تھا کہ کلمہ لا الا اللہ ایک لمحہ میں انسان کو جہنم کے ساتو یں طبقے سے نکال کر جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجے میں پہنچا دیتا ہے، یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے، بلکہ اس واقعے سے اس کا ایک عملی ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ صرف ایک لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ نے اس شخص کے انجام میں اتنا حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیا۔


اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ زبردست انقلاب جو انسان کی زندگی میں بھی اور اس کے انجام میں بھی اس حکم کی بدولت پیدا ہوتا ہے ، اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ کوئی منتر ہے، یا کوئی طلسم ہے کہ اس کے پڑھ لینے کے بعد انسان جہنم سےاور اللہ کے عذاب سے اور اللہ کے غضب سے محفوظ ہو جا تا ہے؟


 واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی منتر نہیں، کوئی طلسم نہیں، حقیقت یہ ہے کہ کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول الله ایک معاہدہ ہے، ایک اقرار ہے جو انسان اپنے پروردگار سے کرتا ہے۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ لاالہ الا اللہ تو اسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں الله کے سوا ہر معبود سے بری ہوتا ہوں اور ہر معبود کی معبودیت سے انکار کرتا ہوں ، اور محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا سچا پیغمبر مانتا ہوں ، اس معاہدہ کا مطلب یہ ہے کہ میں پوری زندگی جو گزاروں گا وہ تمام تر اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ، اسکے  احکام کے مطابق اور اس کی خوشنودی کے مطابق گزارنے کی کوشش کروں گا، یہی معاہدہ کرنے کی بدولت اس کی زندگی میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اللہ کا مبغوض تھا تو اب محبوب بن گیا، پہلے کافر تھا تو اب مسلمان بن گیا، پہلے جہنمی تھا تو اب جنتی بن گیا ، یہ سارا انقلاب اس معاہدہ کی بدولت پیدا ہوتا ہے، اسی معاہدہ کا نام شریعت میں ''توحید'' ہے۔


 آپ جانتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر سرکار دو عالم ﷺ کے زمانے تک جتنے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تشریف لائے ، ان سب نے ایک ہی بنیادی دعوت دی، وہ توحید کی دعوت تھی ، جتنی قوموں پر عذاب نازل ہوئے وہ اسی توحید سے روگردانی کی بنیاد پر نازل ہوئے، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے جو مشقتیں اور صعوبتیں اٹھائیں، وہ اس توحید کی نشر و اشاعت کے لئے اٹھائیں ، یہ ایک ایسا بنیادی عقیدہ ہے جو اسلام اور اللہ تعالی کے دین کا بنیادی پتھر کہلانے کا مستحق ہے، اور اسلام کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کومعبود قرار دے کر اس کے سوا ہر معبود کی نفی کی جائے، ہر معبود سے براءت کا اظہار کیا جائے ، اور اللہ کے سوا کسی کے حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔


علماء نے لکھا ہے کہ توحید کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک توحید اعتقادی، دوسری توحید عملی ۔ توحید اعتقادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا ئنات کا نہ کوئی خالق ہے نہ کوئی معبود ہے، اور نہ کوئی عبادت کے لائق ہے، اور اللہ تعالی کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اللہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود قرار نہ دے، اور صفات میں شریک نہ ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جتنی ایسی صفات ہیں جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں کسی اور کو اس کا شریک نہ بنائے۔


 مثلاً اللہ تعالی رزق دیتا ہے، وہ رزاق ہے، اس رزاقیت کی صفت میں کسی اور کو شامل نہ کرے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہر انسان کا نفع اور نقصان ہے، اس نفع و نقصان کو اللہ تعالی ہی کے قبضہ قدرت میں سمجھے، اسکے سوا کسی اور کو نفع و نقصان کا ذمہ دار قرار نہ دے، اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں شفا اور مرض ہے، تو شفا اور مرض کو اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہ کرے، لہذا جتنی بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان میں سے کسی میں بھی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔


اس بات کی وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ جہاں تک اللہ تعالی کی ذات میں شریک ٹھہرانے کا تعلق ہے، دنیا کے بیشتر مذاہب اسکے قائل رہے ہیں، وہ کافر اور مشرک لوگ جن کی طرف نبی کریم علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا ، اور آپ نے ان کو توحید کی دعوت دی، وہ بھی اس بات کو مانتے تھے کہ پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ وہ بھی اس بات کو مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے، اور ہمیں بھی اس نے پیدا کیا ہے، لیکن ان کا شرک یہ تھا کہ وہ اللہ کی صفات میں کچھ دیوتاؤں کو شریک مانتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ رزق کاشعبہ اللہ تعالی نے فلاں دیوتا کے سپر د کر رکھا ہے ۔ بارش کا شعبہ اللہ تعالی نے فلاں دیوتا کے حوالے کر دیا ہے۔ شفا ء کا شعبہ اللہ تعالی نے فلاں دیویا کو سونپ دیا ہے، اس طرح وہ  صفات باری تعالی کے اندر دو سر ے دیو تا ؤں کوشریک ٹھرانے کے مجرم  تھے۔ اس وجہ سے ان کو مشرک قرار دیا گیا، ورنہ خود قرآن کریم کہتا ہے کہ:


 اگر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تو وہ جواب میں کہیں گے کہ اللہ نے پیدا کیا " اس کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:( أاِلٰہ مع الله)


کہ تم مانتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں اسکے باوجود اسکی صفات میں تم دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو؟ یہ تو کوئی عقلمندی اور دانش مندی کی بات نہیں۔


 اسی لئے تو حید اعتقادی اس وقت کامل ہوتی ہے جب اللہ تعالی کی ذات میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ، اس کی صفات میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، یعنی عبادت کرے انسان تو صرف اللہ کی کرے، معبود مانے تو اللہ کو مانے، پوجے تو اللہ کو پوجے ،مانگے تو اللہ سے مانگے ، اور مشکل کشاء رزاق اور تمام بیماریوں کو دور کرنے والا اللہ کے سوا کسی اور کو نہ سمجھے، یہ ہے تو حید کامل جس کی دعوت حضرت آدم سے لے کر حضور اقدس ﷺ کے زمانے  تک تمام انبیاءنے دی ہے۔


توحید کی دوسری قسم '' توحید عملی   '' ہے، توحید عملی کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتقاد کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے یہ انسان کی عملی زندگی میں اس طرح رچ بس جائے کہ ہر آن اس کو یہ حقیقت مستحضر رہے کہ اللہ کے سوا کوئی شخص مجھ کو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، اور نہ نفع پہنچا سکتا ہے، اور نہ اللہ کے سوا کوئی واجب الاطاعت ہے، مجھے اللہ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے اللہ کے حکم کی اطاعت میں کوئی بڑی سے  بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا، یہ اعتقاد جب انسان کی زندگی میں رچ بس جاتا ہے تو اس کو صوفیاء کی اصطلاح میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو توحید عملی کا مقام حاصل ہو گیا ۔


 اس  تو حید  کا عملی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسا ن اپنی زندگی کے ہرشعبے میں ہر موقع پر اللہ تبارک و تعالی کے احکام کو پیش نظر رکھتا ہے، وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرے اس قدم سے اللہ راضی ہو گا یا ناراض ہوگا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرے اس عمل سے اللہ کی نافرمانی ہو جائے ، اگر نافرمانی کا اندیشہ ہوتو وہ اس قدم سے باز رہتا ہے، اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتا کسی سے اُمید نہیں رکھتا، اللہ تعالی کے حکم کے خلاف اگر کوئی شخص اس کے قدموں میں ساری دنیا جہاں کی دولت لا کر ڈھیر کر دے تو بھی وہ دولت اس کے پائے استقامت کو لغزش میں نہیں لاسکتی ، وہ اللہ تعالی کے احکام سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص زور اور زبردستی کی انتہا کر دے، اور اس کو اپنے سامنے موت ناچتی نظر آرہی ہو، لیکن اسکے باوجود وہ جانتا ہے کہ موت اور زندگی ، شفا اور مرض سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، اگر اس نے میرے لئے یہی وقت مقرر کیا ہے تو اسکو کوئی نہیں ٹال سکتا ، اور اگر میری زندگی باقی ہے تو کوئی شخص مجھے موت کے حوالے نہیں کر سکتا ، اس لئے وہ کبھی بھی کسی ڈر اور خوف کی بنا پر اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے روگردانی پر آمادہ نہیں ہوتا ۔


موحد کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اگر تم اس کے پاؤں پر دنیا جہاں کا سونا ڈھیر کر دو، یا اس کے سر پر ہندی تلوار لٹکا دو، اس کو خدا کے سوا نہ کسی اور سے امید قائم ہوتی ہے، نہ خدا کے سوا کسی کا خوف ہوتا ہے ، اور یہی تو حید کی بنیاد ہے۔


سرکار دو عالم ﷺ  کا واقعہ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک غزوہ کے موقع پر آپ ایک جگہ دو پہر کے وقت ایک درخت کے سائے میں آرام فرمارہے تھے کہ اتنے میں دشمن کا ایک شخص ادھر آنکلا ، آپ کی تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی ، اس نے اس تلوار پر قبضہ کیا، اور نبی کریم ﷺکو جگایا ، اور آپ سے کہا کہ اب تمہیں میری تلوار سے کون بچا سکتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نیند سے بیدار ہوئے ، اچانک یہ منظر سامنے آیا کہ تلوار اس شخص کے ہاتھ میں ہے، ایسے موقع پر جبکہ موت نگاہ کے سامنے ناچتی نظر آرہی ہو، ظاہر ہے کہ وہ شخص دشمن ہے ، آپ کے خون کا پیاسا ہے، اس کے ہاتھ میں تلوار بھی ہے، بازو میں طاقت بھی ہے، اور وہ نبی کریم ﷺ پر بری نیت سے حملہ کرنے آیا ہے، لیکن اس کے باوجود نبی کریم ﷺ نے بڑے اطمینان سے یہ جواب دیا کہ مجھے بچانے والا اللہ ہے ، مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ کو اس وقت مجھے مارنا منظور ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے نہیں بچاسکتی، اور اگر اللہ تعالی نے میری زندگی اور لکھی ہے تو تمہاری یہ تلوار اور تمہاری یہ عداوت میرا بال بہ کا نہیں کر سکتی ۔ یہ جواب آپ نے اس اعتماد اور بھروسے کے ساتھ دیا کہ اس اعتماد اور بھروسے سے دشمن پر لرزہ طاری ہو گیا ، اور اس حالت  میں تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی ، اب تلوار نبی ﷺ کے ہاتھ میں تھی ، آپ نے تلوار اٹھا کر فرمایا کہ تمہیں اس تلوار سے اور میرے حملے سے کون بچا سکتا ہے؟ اس شخص کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس نے نبی کریم ﷺ کے اس اعتماد اور تو کل کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا اور مسلمان ہو گیا ۔


اسلام قبول کرلیا اورمسلمان ہوگیا۔ عرض کرنے کا منشا یہ تھا کہ ''توحید عملی '' اس وقت کہلاتی ہے جب انسان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اس بات کو پیش نظر رکھے کہ میں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے کے بعد اپنے پروردگار سے ایک معاہدہ کیا ہے اور اس اقرار اور معاہدہ کا تقاضایہ ہے کہ میں زندگی کے کسی بھی قدم پر اس کے کسی بھی حکم کی خلاف ورزی نہ کروں گا، جب یہ مقام انسان کو حاصل ہو جاتا ہے تو یہ ''توحید عملی" کہلاتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جو در حقیقت انسان کی زندگی میں انقلاب بر پا کرتا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کو جہنمی سے جنتی بناتی ہے، اور اللہ کے مبغوض سے محبوب بنا دیتی ہے۔


 اس توحید عملی کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اس معاہدہ کے بعد میرے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اللہ تبارک و تعالٰی نے کیا احکام مجھے دیے ہیں ، اور کن باتوں سے مجھے روکا ہے، سب سے پہلا مرحلہ انہی باتوں کو معلوم کرنے کا ہے، اس واسطے نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: طلب العِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ)


 ہر مسلمان پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا فریضہ یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ علم کی طلب کرے یعنی یہ معلوم کرے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے؟ اور اس کی نافرمانی کیا ہے؟ جب یہ باتیں انسان کو معلوم ہو جاتی ہیں تو پھر اس بات پر اس کو قدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اندر اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کر ہے، اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو حید کے صحیح تقاضوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ان پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے تمام ثمرات اور نتائج سے بہرہ ور فرمائے ۔ آمین ۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Search your Topic