موبائل اور ہمارا معاشرہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

موبائل اور ہمارا معاشرہ


انس صاحب: السلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔
مولانا انور صاحب: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
انس صاحب: آپ کا موجودہ معاشرے کے بارے میں کیا خیال ہے؟


مولانا انور صاحب:  بہت برا خیال ہے ۔ لیکن آپ اپنا خیال بتلائیے۔
انس صاحب :آپ کا خیال کچھ بھی ہو، مجھے تو مزے آرہے ہیں۔ کاروبار بھی اچھا ہی چل رہا  ہے  ،بیوی بچے بھی خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں ، عیش و آرام کے سامان بھی مہیا ہیں ۔ بس ایک Mobile کی کمی تھی سو وہ بھی پوری ہوگئی ، ابھی چند دنوں پہلے ہیI PHONE کمپنی کا بہترین Mobile لیا ہے، تصویر بھی بالکل صاف آرہی ہے اور ساؤ نڈ بھی بالکل OK ہے۔




مولانا انور صاحب: پھر تو آپ کی محترمہ ( بیوی ) اور بچے بھی OK ہوں گے۔
انس صاحب : کیوں نہیں؟ پہلے میری بیوی صرف سرسوتیل اپنے سر میں لگایاکرتی تھی یا زیادہ سے زیادہ گولہ ( ناریل کا تیل لگا لیتی تھی ، اور اب تو کمال ہی کرتی ہے۔کبھی آؤ نلا ، ڈابر منگواتی ہے تو کبھی ہیر وآئل منگاتی ہے۔ اور صابن تو کبھی لگاتی تھی اور کبھی نہیں ۔ لیکن اب تو صابن کیا جو بھی نیا پر چار موبائل پر دیکھتی ہے وہی صابن اور Shempu لگا نا شروع کر دیتی ہے۔ اور بچے تو خوب ہی کمال کر رہے ہیں پہلے تو مایوس منحوس کی طرح بیٹھے رہتے تھے لیکن جب سے Mobile گھر میں آیا ہے۔ اک دم چست و چالاک بن گئے ہیں، اور جتنا بھی مشکل پر چار ہو سب سمجھ جاتے ہیں ۔ اور ویسا ہی کرتے ہیں۔


مولانا انور صاحب :اور بھی Mobile کے فائدے ہیں، یا بس اتنا ہی ۔
انس صاحب : ارے نہیں جناب پہ تو معمولی فائدہ ہے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ۲۴ گھنٹہ اس پر ایک سے ایک فلمیں آتی ہیں۔ جو ہمیں جینے کا ڈھنگ اور عشق و محبت کے طریقے سکھلاتی ہیں بزنس کا طریقہ، ایک ظالم سے ظلم کا بدلہ کس طرح لینا ہے، مظلوم کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ ان تمام باتوں کا علم فلم دیکھے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اور آپ خود سوچئے! اخبار میں ہم پڑھتے ہیں یا ریڈیو میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ یہ معاملہ ہوا، لیکن اس وقت دل کو تشفی نہیں ہوتی اور جب Mobile میں وہی چیز دیکھ لیتے ہیں تو دل کو پورا یقین ہو جاتا ہے، اب اس سے بڑھ کر کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز سامنے دکھائی دے اور آدمی کی معلومات میں اضافہ ہو۔


مولانا انور صاحب
:تو پھر آپ کا Calcher بہت عمدہ ہوگا اور آپ ایک نئی زندگی کے سایے میں جی رہے ہوں گے ۔
انس صاحب :  ہاں !جناب کیوں نہیں؟ پہلے ہمارے بچے یونہی ٹہلتے رہتے تھے نہ صفائی ستھرائی اور نہ کپڑوں میں کیرچ وغیرہ ، اور اب تو کپڑے بھی اعلیٰ ایک سے ایک جنس پینٹ ، کورٹ ، عمد ہ شرٹ ، اور ٹائی وغیرہ لگا کر ہی گھر سے نکلتے ہیں ۔ ایسا لگاتا ہے کہ کوئی نواب قسم کا آدمی جارہا ہے۔ میں تو یہ سنتا تھا کہ اس طرح کے کپڑے لوگ امریکہ میں پہنتے ہیں لیکن اب ہندوستان ہی میرے لیے امریکہ ہے کیونکہ وہاں کا سارا Calcher ہمارے ساتھ ہے۔ اب  ہم فخر سے کہہ سکتے نہیں ہم کسی سے کم نہیں"۔

مولانا انور صاحب
:عجب دور آ گیا ہے۔ اک زمانہ تھا کہ لوگ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے ان کا نام اپنی زبان پر لانا گناہ سمجھتے تھے، اور آج پوری قوم  اس کی تہذیب کو اپنا کر فخر محسوس کر رہی ہے۔
انس صاحب:مولانا آپکو کیا معلوم کہ زندگی کا مزہ کس طرح لیا جاتا ہے، آپ تو وہی پرانی باتیں کر رہے ہیں۔ جو کبھی ہمارے دادا سنایا کرتے تھے ذرا شعور پیدا کیجئے ۔ وقت بدل چکا ہے۔ لوگ بدل چکے ہیں ، اب وہ پہلے جیسے خیالات و افکار نہیں رہے۔ ہمارا تو اصول ہے کہ ہم زمانے کے غلام ہیں جو دنیا کرے گی وہی ہم کریں گے۔ اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ لوگ زمین سے آسمان کی سیر کر رہے ہیں ، اور آسمان پر ایک نئی دنیا بسانے کی باتیں کر رہے ہیں ، اور ایک آپ ہیں کہ چودہ سو سال پرانی باتیں کر کے خواہ مخواہ الجھن پیدا کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو بھی نیچے خیالات کے لوگ ہیں ان کی زندگی یوں ہی کٹ رہی ہے، اسی خیال کا میرا  اک بھائی بھی ہے، جو ہمیشہ مسئلہ مسئلہ کی رٹ لگاتا رہتا ہے اک مکان ایک دوکان ، باقی کچھ نہیں خالی چلہ ہی لگاتا پھرتا ہے۔ میں آپ کو بھی اس سے ملواتا ہوں عمار بھائی ذرا ادھر آنا، لو مولانا سے ملو۔

عمار بھائی: السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔
مولانا انور صاحب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ، کیا حال ہے؟

عمار بھائی:  اللہ کا فضل وکرم سے کام وغیرہ بھی صحیح چل رہا ہے ۔


مولانا انور صاحب: گھریلو معاملات کیسے ہیں بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے؟
عمار بھائی: مولانا میں بہت پریشان ہوں، میری دلی خواہش تھی کہ میرا کوئی بچہ حافظ قرآن بنے اور علم دین حاصل کر کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے لیکن آج افسوس ہے کہ میری یہ خواہش شاید پوری نہ ہو سکے گی۔ کیوں کہ وہ آس پاس پڑوس کے ماحول سے بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ میں نے ماحول کو دیکھتےہوئے Mobile نہیں خریدا ،ور نہ اور برباد ہو جاتے۔

مولانا انور صاحب: آپ کے پڑوس میں کون لوگ رہتے ہیں ؟
عمار بھائی: سب اپنے ہی رشتے دار ہیں ، اور بھائی انس صاحب بھی تو و ہمیں رہتے ہیں ان کے ہی بچوں نے ہمارا ماحول بگاڑاہے۔

مولانا انور صاحب: لیکن یہ تو اس ماحول سے بہت خوش ہیں ، اور اس کی تعریف بھی خوب اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔
عمار بھائی: میں تو حضرت اتنا جانتا ہوں کہ دنیا کچھ بھی کرے لا لکھ پیسےکمالے عیش و آرام کی زندگی بسر کر لے لیکن پھر بھی اسے خدا کے پاس جانا ہی ہے، اور یہ عزت، شہرت دولت ، سبھی عارضی ہیں اصلی دولت اور عزت تو وہ ہے جو ہمیں باری تعالیٰ جنت میں عطا فرمائیں گے، میں نے دنیاوی عیش و عشرت کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا۔

مولانا انور صاحب: آپ کو انتادینی شعور کس طرح حاصل ہوا، اور آپ ایسے ماحول میں بھی رہ کر اپنی شریعت کے پورے پابند ہیں آخر کس طرح ؟
عمار بھائی : یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، اور آپ جیسے بزرگوں، نیک عالموں کی دعائیں ہیں میں وقتا فوقتا جماعت میں بھی چلا جاتا ہوں اور اپنی اصلاح کر لیتا ہوں ورنہ آج بھی فاسق و فاجر بلکہ جانور جیسی زندگی گذارتا ۔

مولانا انور صاحب: پھر رشتہ داروں میں آپ کی کیا اہمیت ہے؟
عماربھائی : بس انکی چھوڑئیے ! وہ تو ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ یہ پرانےخیالات کا آدمی ہے اسے دنیاوی معلومات کچھ بھی نہیں ، یہ تو سوکھی زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن مولانا جو سکون مجھے عبادت خدا اور طاعت رسول میں مل رہا ہے اور عشق کی جو لذت مجھے تعلق مع اللہ کے وقت حاصل ہوتی ہے یہ شعر ٹھیک اس کا ترجمان ہے۔ 


جن کا مشق صادق ہو وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پر مہر خاموشی دلوں میں یاد کرتے ہیں


مولانا انور صاحب: پھر آپ اپنے گھریلو ماحول کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟
عمار بھائی: وہ جو کہاوت مشہور ہے نہ کہ گھر کی مرغی دال برابر اسی طرح میں ہوں ، وہ لوگ مجھے ہی نصیحت کرنے لگتے ہیں۔



مولاناانور صاحب: تو اپنی اولاد کے لیے آئندہ کا کیا ارادہ ہے
عمار بھائی: انکے سلسلے میں تو میرے دل میں نیک خواہشوں کا ایک طوفان ہے کہ وہ ایک دیندار ، کریم الطبع حسن خلق کا پیکر ہو، علم وعمل سے انکی زندگی سرشار ہو ، خدا اور اس کےرسولﷺ  کا حکم مد نظر ہو، اور حوادثاتِ زمانہ سے دور رہیں لیکن مولانا فکر ہی فکر میں وقت گزر رہا ہے کچھ کر نہیں پار رہا ہوں۔ ماحول نے اس طرح متاثر کر دیا ہے کہ اب اس دنیا سے جی گھبرا گیا ہے اور میں ہی نہیں، بلکہ میرا ایک ساتھی ہے” کپیل ''ہے تو وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا ، لیکن وہ بھی اس پراگندہ ماحول سے پریشان ہے اور ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ Government تو دھارمک استھان پر پابندی لگاتی ہے۔ لیکن فلم پر کوئی پابندی نہیں سرکار کو صرف ٹیکس چاہیے، چاہے پبلک کا سارا Box کیوں نہ خالی ہو جائے ۔


مولانا انورصاحب: تو پھر آپ اس وباء سے بچنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیارکرنا 
چاہیں گے۔
عمار بھائی: ہمیں ماحول سازگار بنانے کی فکر ہے، اس کے لیے میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ آپ اصلاح معاشرہ کا جلسہ کروادیں ”مہربانی ہوگی جو بھی خرچ ہوگا میں برداشت کروں گا۔ قرآن واحادیث کی روشنی میں لہو ولعبMobile ,TV کی قباحت و شناخت کو اجا گر کر کے ان کے ذہن و دماغ کو برائیوں سے پاک وصاف کر دیں تاکہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے۔


مولانا انورصاحب: مجھے منظور ہے اور یہ میرا دینی وملی فریضہ بھی ہے لیکن میں تو مقر رنہیں ہوں البتہ میرے ایک ساتھی ہیں جو اصلاح معاشرہ پر اچھی تقریر کرتے ہیں، بلکہ انہوں نے تو کمال ہی کر دیا۔ ایک مسلم فلمی ڈائرکٹر کو دیندار بنا دیا۔ آج وہ ایک باشرع آدمی بن چکے ہیں۔ چلئے میں آپ کی ملاقات مولانا فضیل صاحب سے کرواتا ہوں وہی تقریر کریں گے۔ یہ ہیں مولا نا فضیل صاحب۔

مولانا فضیل صاحب  اسٹیج پر

الحمد للہ وحدہ والصلوة والسلام على من لا نبي بعده أما بعد: اعوذ بالله من الشَّيْطَنِ الرَّحِيم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ومن الناس من يشترى لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا اولئك لهم عذاب مهين (سورة لقمان آیت ۶)


 جب امت کی حالت سنانے لگیں گے * تو پتھر بھی آنسو بہانے لگیں گے
اگر بھیٹر میں کھوگئی ان کی حالت *اسے ڈھونڈنے میں زمانے لگیں گے


          اس بات سے کسی حق پرست شخص کو انکار نہیں کہ ٹیلی ویژن اور     موبائل  اس زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ ہے اسلئے کہ اس سے بے حیائی اور فحاشی کو فروغ ملتا ہے اور دین سے لوگ غافل ہو جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ Mobile ,TV پروگرام کو دیکھنے والے عام طور پر نمازوں میں غفلت کرتے ہیں جماعت کا اہتمام نہیں کرتے ، ، اور  جب کوئی خاص پروگرام آتا ہے تو تمام دینی و دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر اس میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو چیز دین و دنیا دونوں سے غافل کر دے وہ کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ لیکن آج کا معاشرہ جن پر خطر وادیوں میں گھس چکا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑ ا جا چکا ہے۔ شاید کوئی کرشمہ ہی اس سے نجات دلا سکتا ہے۔


           مجھے افسوس ہے کہ جس طفل مکتب کو کل کا غازی اور جس نسل کو دینی مجاہد بننا تھا جس سے ہم نے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ جس پھول کے خوشبو دار گلشن سے سینکڑوں دیوانے مستفید ہونے کے خواہشمند تھے۔ آج وہ نسلِ نو ضلالت و جہالت کے عمیق غار میں جا چکی ہے اس کا ہر ایک طرز عمل ایک غیرتمند انسان کو احساس کرنے پر مجبور کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ کو یہ تو معلوم ہے کہ انڈیا کا کریکٹر کون ہے، سپر اسٹار کون ہے، انڈیا کی کون سی ہیروئن مس انڈیا ہے  TV ,Mobileکے کس چینل پر کونسا پروگرام کب آتا ہے۔ اخبارات کی رنگین میگزین کس دن آتی ہے۔ مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ جس امت میں یہ داخل ہے اس نبی کا نام کیا ہے؟ صحابہ کرام کون لوگ تھے؟ انہوں نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں؟ حضرت ابو بکر کون ہیں؟ حضرت عمر کون ہیں؟ حضرت عثمان غنی کون ہیں؟ حضرت علی کون ہیں؟ وجہ ان کے والدین کی دین سے بے رغبتی ہے جیسا پودا ہو گا ویسا ہی پھل ہو گا۔ اور سب کی وجہ غیرت شرم و حیاء کا ختم ہو جانا اس کی وجہ صرف موبائل جس نے سارے معاشرے میں بددینی بدامنی پھیلا رکھی ہے۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ  کا ارشاد ہے



إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَغَارُ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنُ يَغَارُ۔ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ لَا يَاتِي الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ اللهُ۔

        اللہ تعالیٰ غیرت کھاتے ہیں اور مومن بھی غیرت کھاتا ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن وہ کام نہ کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اس حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ غیرت جو باری تعالیٰ کی صفت ہے۔ وہ مرد مومن میں بھی ہونی چاہیے۔ اور با غیرت آدمی وہی ہو سکتا ہے کہ اگر اس کی اولا د فواحش و منکرات کا کام کرے تو اس کا خون ایمانی حرارت سے جوش مارنے لگے ۔ جبکہ قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو منکرات و فواحش کے اسباب خرید کر اپنی ضلالت و گمراہی کے سامان تیار کرتے ہیں ۔ ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ چند کلمات ہی ایک مومن کو ہوشیار کرنے کے لیے کافی ہیں ۔

 

وما علینا الا البلاغ ۔

 

انس صاحب کا توبہ: میں یہ عزم کرتا ہوں کہ آئندہ خدا کی نافرمانی سے بچوں گا، مجھے جانے دیجئے آج اور ابھی اپنے گھر سےMobile, TV پھینک دوں ۔

 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Search your Topic