ایک
مولوی صاحب تھے کسی جگہ تقریر کرنے کو جا رہے تھے اتفاق سے جانے والی گاڑی لیٹ ہو گئی وہ شام کو چھ بجے
پہنچنے والے تھے وہ رات کو ایک بجے اسٹیشن پر پہونچے جہاں مولوی صاحب کو جانا تھا۔
ان کے استقبال کیلئے جو لوگ آئے تھے وہ سب کے سب ٹرین لیٹ ہو جانے کیوجہ سے گھر
واپس لوٹ گئے۔ مولوی صاحب اسٹیشن پر کھڑے کچھ دیر سوچتے رہے پھر خیال آیا کہ
اسٹیشن کے باہر ایک ہوٹل ہے اس میں ایک رات کیلئے کمرہ لے لیا جائے یہ سوچ کر
اسٹیشن کے باہر نکلے اور ہوٹل پر پہنچ کر ہوٹل کی زنجیر کھٹکھٹائی ہوٹل کے مالک تو
گھر چلے گئے تھے البتہ ایک نوکر ہوٹل میں تھا وہ تیسری منزل پر سویا ہوا تھا سردی
کڑاکے کی زبر دست پڑ رہی تھی۔ نوکر بھی بھر پور نیند میں سویا ہوا تھا۔ دروازہ
کھٹکھٹانے پر اس کی آنکھ کھلی معلوم ہوتا ہے کوئی پسنجر آیا ہوا ہے جوز نجیر
کھٹکھٹا رہا ہے۔ وہ نوکر نیچے نہیں اتر ابلکہ تیسری منزل سے
کھڑ کی کھول کر پوچھنے لگا کون ہو؟ سردی اس غضب کی پڑرہی تھی اس لئے نیچے اترنا اس
نے مناسب نہیں سمجھا بلکہ نیچے جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ کتنے آدمی ہیں۔ صرف
آواز دیکر پوچھتا ہے کہ آپ کون صاحب ہیں تو مولوی صاحب نے اپنا نام بتایا۔ اسکو
ذرا غور سے پڑھئے ۔
نصیحت
قران کریم کے پانچویں پارے میں سورہ نساء کے
چھٹے رکوع میں آیت ۳۶
میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ترجمه : اللہ تعالی تکبر کرنے والوں کو اور شیخی
خوروں کو پسند نہیں کرتا۔
ابلیس آگ سے بنا ہوا ہے اور جناتوں میں سے ہے اس
کا اصلی نام عزازیل ہے۔ اس نے عبادت میں اسقدر محنت کی کہ وہ فرشتوں کی جماعت میں
شامل ہو گیا اور اسکا لقب عزازیل علیہ السلام پڑ گیا۔ جب آدم علیہ السلام کا اللہ
تبارک و تعالٰی نے پتلا بنا کر جنت میں رکھ دیا پھر اعلان کردیا کہ اسکو ہم زمین
پر خلیفہ بنائیں گے اور یہ ہماری عبادت کریگا۔ یہ سن کر ابلیس دل میں سوچنے لگاکہ
یہ کیا عبادت کریگا ،عبادت تو میں نے کی
ہے کہ آگ سے پیدا ہونے کہ باوجود میں نے نوری جماعت میں داخلہ لے لیا۔ اس فخر نے
اسکوڈ بو دیا اور عزازیل علیہ السلام سے خارج ہو کر ابلیس لعنت اللہ کا حقدار ہو
گیا لہذا کسی کو اپنی عبادت یا علم پر فخر نہیں کرنا چاہئے۔ اس قسم کے ٹائٹل اور
لقب نام کے اوپر لگانے میں فخر کی اور ریا کاری کی بو آتی ہے ان کے لئے جو وعید
آئی ہے اسکو سنئے ۔
طبرانی کی ایک حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی
کا نام ہے۔ اس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی اس سے ہر دن چار سو مرتبہ
پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریا کار علماء کیلئے ہے اور ریا کاری کے طور پر
صدقہ خیرات کرنے والوں کیلئے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کیلئے ہے
اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کیلئے ہے ۔
(حوالہ :تقاریرِ حقانی
۱؍۷۴)

