ایک نام نہاد مولوی

  ایک مولوی صاحب تھے کسی جگہ تقریر کرنے کو جا رہے تھے اتفاق سے  جانے والی گاڑی لیٹ ہو گئی وہ شام کو چھ بجے پہنچنے والے تھے وہ رات کو ایک بجے اسٹیشن پر پہونچے جہاں مولوی صاحب کو جانا تھا۔ ان کے استقبال کیلئے جو لوگ آئے تھے وہ سب کے سب ٹرین لیٹ ہو جانے کیوجہ سے گھر واپس لوٹ گئے۔ مولوی صاحب اسٹیشن پر کھڑے کچھ دیر سوچتے رہے پھر خیال آیا کہ اسٹیشن کے باہر ایک ہوٹل ہے اس میں ایک رات کیلئے کمرہ لے لیا جائے یہ سوچ کر اسٹیشن کے باہر نکلے اور ہوٹل پر پہنچ کر ہوٹل کی زنجیر کھٹکھٹائی ہوٹل کے مالک تو گھر چلے گئے تھے البتہ ایک نوکر ہوٹل میں تھا وہ تیسری منزل پر سویا ہوا تھا سردی کڑاکے کی زبر دست پڑ رہی تھی۔ نوکر بھی بھر پور نیند میں سویا ہوا تھا۔ دروازہ کھٹکھٹانے پر اس کی آنکھ کھلی معلوم ہوتا ہے کوئی پسنجر آیا ہوا ہے جوز نجیر کھٹکھٹا رہا ہے۔ وہ نوکر نیچے نہیں اتر ابلکہ تیسری منزل سے کھڑ کی کھول کر پوچھنے لگا کون ہو؟ سردی اس غضب کی پڑرہی تھی اس لئے نیچے اترنا اس نے مناسب نہیں سمجھا بلکہ نیچے جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ کتنے آدمی ہیں۔ صرف آواز دیکر پوچھتا ہے کہ آپ کون صاحب ہیں تو مولوی صاحب نے اپنا نام بتایا۔ اسکو ذرا غور سے پڑھئے ۔



 الحاج ، مفتی، مولانا مولوی ، حافظ قاری، حامئی سنت، قاطع ِ بدعت ، فخر ملت، محمد ایقان الرحمن، عمری، قادری ،چشتی، نقش بندی سہروردی، صابری، رضوی مدظله العالی یہ سنکر اس ہوٹل والے نے کھڑکی بند کر دی اور کہا ہمارے پاس اتنے آدمیوں کیلئے جگہ نہیں ہے۔ وہ نوکر لمبا چوڑا نام سنکر یہ سمجھا کہ یہ لوگ دس بارہ آدمی ہیں اس وجہ سے اس نے کھڑکی بند کر دی اور ہوٹل کا دروازہ نہیں کھولا ۔ مولوی صاحب مجبوراً رات بھر ہوٹل کے باہر ایک چیو تر اتھا وہاں پڑے رہے۔ صبح کو جب ہوٹل والے نے دروازہ کھولا تو مولوی صاحب سردی کے مارے کانپ رہے تھے۔ اور ہوٹل والے سے شکایت کرنے لگے آپ نے رات کو ہوٹل کا دروازہ کیوں نہیں کھولا، ہوٹل والے نے جواب دیا ہمارے پاس دو تین آدمیوں کی جگہ تھی مگر اپنے اتنی لمبی چوڑی ناموں کی فہرست گنِائی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ دس بارہ آدمی ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ہم دس بارہ آدمی کہاں تھے میں اکیلا ہی تو تھا۔ ہوٹل والے نے کہا آپ نے جو رات کو نام بتائے تھے اس حساب سے میں سمجھا کہ آپ زیادہ لوگ ہیں اس لئے ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔ اگر آپ کہتے کہ نہیں اکیلا ایک آدمی ہوں تو ہم آپ کو ہوٹل میں کمرہ ضرور دیدیتے لیکن آپکے نام بتانے سے مجھ کو غلط فہمی ہو گئی ۔


نصیحت 

حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نام پر یا کسی صحابی رضی اللہ عنہم  کے نام پر یا کسی امام کے نام پر یا کسی محدثین کے نام پر آپ صاحبوں کو اتنے لمبے چوڑے ٹائٹل اور لقب نہیں ملیں گے یہ ٹائل یہ القاب ہندوستان کے مولوی صاحبان کے نام پر ملیں گے۔ اس قسم کے ٹائٹل اور لقب لگانے میں فخر کی بو آتی ہے اور فخر اللہ تعالی کو پسند نہیں۔


 قران کریم کے پانچویں پارے میں سورہ نساء کے چھٹے رکوع میں آیت ۳۶ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ترجمه : اللہ تعالی تکبر کرنے والوں کو اور شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا۔


 ابلیس آگ سے بنا ہوا ہے اور جناتوں میں سے ہے اس کا اصلی نام عزازیل ہے۔ اس نے عبادت میں اسقدر محنت کی کہ وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو گیا اور اسکا لقب عزازیل علیہ السلام پڑ گیا۔ جب آدم علیہ السلام کا اللہ تبارک و تعالٰی نے پتلا بنا کر جنت میں رکھ دیا پھر اعلان کردیا کہ اسکو ہم زمین پر خلیفہ بنائیں گے اور یہ ہماری عبادت کریگا۔ یہ سن کر ابلیس دل میں سوچنے لگاکہ یہ کیا عبادت کریگا ،عبادت  تو میں نے کی ہے کہ آگ سے پیدا ہونے کہ باوجود میں نے نوری جماعت میں داخلہ لے لیا۔ اس فخر نے اسکوڈ بو دیا اور عزازیل علیہ السلام سے خارج ہو کر ابلیس لعنت اللہ کا حقدار ہو گیا لہذا کسی کو اپنی عبادت یا علم پر فخر نہیں کرنا چاہئے۔ اس قسم کے ٹائٹل اور لقب نام کے اوپر لگانے میں فخر کی اور ریا کاری کی بو آتی ہے ان کے لئے جو وعید آئی ہے اسکو سنئے ۔


 طبرانی کی ایک حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔ اس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی اس سے ہر دن چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریا کار علماء کیلئے ہے اور ریا کاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کیلئے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کیلئے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کیلئے ہے ۔


(حوالہ :تقاریرِ حقانی ۱؍۷۴)

 

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Search your Topic