سفرِ حیات کی داستاں
کرے عرض کیا یہ دلِ تپاں
رمِ زندگی کا وہ کارواں
جو سبک روی سے رہا رواں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بشر کا چہرۂ شادماں
وہ خوشی کا عرصہ جاوداں
نہ خطر نہ خوف یہاں وہاں
ہر ایک سمت سکوں، اماں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وه نسیمِ صبح ، چمن فشاں
وہ فضائے شام قمر چکاں
وہ حیات جیسے ہو گلستاں
وہ حیات مثلِ پرندگاں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
غمِ دل سےدور وہ بستیاں
وہ تھکن سے چور جفا کشاں
وہ پہیلیاں وہ حویلیاں
وہ نشاط و نغمہ جواں جواں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ فضا شگفتہ کی گاؤں کی
سرِ آب دھول وہ پاؤں کی
وہ تلاش دھوپ میں چھاؤں کی
وہ کسی درخت کا سائباں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
دمِ کمسنی کا وہ مدرسہ
وه نوشت و خواند کا مرحلہ
کبھی کھیل کو د کا سلسلہ
کبھی چھٹیاں، کبھی امتحاں
تمہیں یاد ہو۔ کہ نہ یاد ہو
وہ زمیں زماں کہ تھے معتبر
جہاں بھید بھاؤ نہ شور و شر
نہ تھا نفرتوں کا جہاں گزر
وہ محبتوں کا حسیں سماں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
نہ یہ جنگ وسنگ، نہ یورشیں
نہ یہ قتل وخون کی سازشیں
نہ بموں کی چرخ سے بارشیں
نہ فضا کا رنگ دھواں دھواں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
دل راز اب جو اداس ہے
یہ جو عام خوف وہراس ہے
کوئی فتنہ جس کی اساس ہے
نہ تھا اس کا پہلے کوئی نشاں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

