دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دے گھوڑے ہم نے
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی امارت و سر کردگی میں ایک لشکر ایرانیوں سے مقابلہ کے لئے گیا، ایرانی لشکر کا سپہ سالار مشہور زمانہ پہلوان و بہادر رستم تھا، حضرت خالد بن ولید نے رستم کی درخواست پر حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو اس سے بات چیت کے لئے بھیجا ، ایرانیوں نے رستم کا دربار خوب سجا رکھا تھا ، ریشم و حریر کے گدے ، بہترین قالین سونے و چاندی کی اشیاء اور دیگر اسباب زینت سے آراستہ پیراستہ کر دیا تھا ، حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ، ہتھیارات سے لیس، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ، اس شان کے ساتھ رستم کے دربار میں پہنچے کہ ننگی تلوار آپ کے ہاتھ میں تھی ۔ دربار میں رستم کا فرش بچھا ہوا تھا ، آپ گھوڑے کو اسی پر چلاتے ہوئے اندر جانے لگے ، رستم پہلوان کے آدمیوں نے ان کو روکا اور ان سے کہا کہ کم سے کم تلوار تو زیر نیام کر لیں ۔ حضرت ربعی بن عامر نے فرمایا کہ میں تمہاری دعوت پر آیا ہوں، میری مرضی اور خواہش سے نہیں ، اگر تم اس طرح آنے نہ دو گے تو میں لوٹ جاؤں گا۔ جب رستم نے یہ دیکھا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کو اسی حالت میں آنے دو۔
چنانچہ آپ اسی شان کے ساتھ رستم کے پاس پہنچے اور فرش جگہ جگہ سے تلوار کی نوک کی زد میں آکر پھٹ گیا تھا رستم نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟
حضرت ربعی بن عامر نے ایسا جواب دیا جو ہمیشہ کے لئے لا جواب رہے گا ، آپ نے کہا کہ:
"الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة الله ، ومن ضيق الدنيا إلى سعتها، ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام “
(اللہ نے ہمیں اس لئے مبعوث کیا ہے کہ ہم اللہ کے بندوں میں سے اللہ جن کو چا ہے ان کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف لائیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس کی وسعتوں میں لے جائیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کے عدل انصاف کی طرف لائیں)
( تاریخ طبری : ۲؍۴۰۱،البدایہ و النہایہ : ۸؍ ۳۹)
اس واقعہ سے اسلامی معاشرے کے افراد کی مظاہر کا ئنات سے ،دنیا کی دلفریبیوں سے اور مادی طاقتوں سے بے رغبتی و بے خوفی کا عظیم الشان مظاہرہ ہورہاہے، یہی چیز اسلامی معاشرے کو کفر وشرک سے نکالتی اور شیطانی و طاغوتی قوتوں کے مقابلہ میں روحانی و ایمانی طاقت بخشتی ہے۔


