Let Go of the Past

 

جو گزر گیا سو گزر گیا

 

        ماضی میں جینا، اس کے غموں اور المیوں کو یاد کرتے رہنا اور ان پر رنج کرنا بے وقوفی اور حماقت ہے۔ اس سے ارادہ مضمحل اور موجودہ زندگی مکدر ہو جائے گی حکماء کہتے ہیں کہ ماضی کی فائل لپیٹ کر رکھ دی جائے اسے کھولا نہ جانا چاہئے بلکہ ہمیشہ کے لئے بھلا دینا چاہئے ۔ اسے کسی دربہ میں ڈال کر بند کر دیا جائے ۔ کیونکہ جو گزر گیا وہ گزر چکا نہ اس کی یاد اسے لوٹائے گی نہ کوئی غم یا رنج وفکر اسے زندہ کر سکتی ہے، کیونکہ ماضی کا مطلب ہے عدم، ماضی پرستی کے مرض میں مبتلا مت رہئے ، جو چھوٹ گیا اس کی پر چھائیوں سے پیچھا چھڑائے۔ کیونکہ آپ دریا کو اصل کی طرف، سورج کو مطلع کی طرف بچہ کو ماں کے پیٹ میں، دودھ کو چھاتی میں اور آنسو کو آنکھ میں واپس نہیں لا سکتے۔




       ماضی کے سایہ میں رہنا، اسے یاد کرتے رہنا ، اس کی آگ میں جلنا، ایک افسوسناک ، المناک اور مرعوب کن بات ہے۔ ماضی کی کتاب پڑھنے سے حاضر کی بربادی اور وقت کا زیاں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گزشتہ اقوام کا اور ان کے کاموں کا تذکرہ کیا ہے اور کہا کہ یہ ایک قوم تھی جو گزر چکی، یعنی ان قوموں کا معاملہ ختم ہوا۔ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے اور تاریخ کے پہیے کو پلٹانے سے کیا حاصل۔ ماضی کی بات دہرانے والا تو ایسا ہے کہ کوئی پسے ہوئے آٹے کو پھر پیسے یا کٹی ہوئی   لکڑی کو پھر سے کاٹے ، ماضی کا رونا رونے والوں کے بارے میں پچھلوں کا کہنا ہے کہ تم مردوں کوقبروں سے نہ نکالو۔


          ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم حال سے عاجز اور ماضی سے چمٹے ہوئے ہیں اپنے خوبصورت محلات کو یونہی چھوڑ کر ماضی کے بوسیدہ قلعوں کو روتے رہتے ہیں حالانکہ ماضی کو واپس لانے پر تو جن وانس جمع ہو کر بھی قادر نہیں ہو سکتے ۔ لوگ پیچھے کی طرف نہیں دیکھتے ، ہوا آگے کو چلتی ہے، پانی آگے کو بہتا ہے، کارواں آگے چلتا ہے یہ سنت حیات ہے آپ اس کی مخالفت نہ کریں۔


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Search your Topic