مستقبل کو آنے دیجیے
اللہ کا حکم ہو کر رہے گا: تقدیر پر ایمان
یہ یقین رکھنا کہ ہر چیز اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور وقت سے پہلے اس کے بارے میں بے چینی کا شکار ہونا، صبر اور تقدیر پر ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ قرآن پاک میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
"اللہ کا حکم ہو کر رہے گا، اس کی جلدی نہ مچاؤ۔" (النحل ۱:۱۶)
مستقبل ایک نادیدہ شے ہے، بالکل اسی طرح جیسے حمل اپنی مدت پوری ہونے پر ہی مکمل ہوتا ہے، یا پھل اپنے وقت پر ہی پکتا ہے۔ انہیں قبل از وقت چاہنا یا توڑنا بے صبری اور فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
کل ایک مفقود شے ہے: غیب کا بوجھ اٹھانا
کل (آنے والا دن) ہمارے لیے ایک ایسی چیز ہے جس کا نہ کوئی رنگ ہے، نہ ذائقہ اور نہ ہی وجود۔ ہم اس کے مصائب، آرزوؤں، توقعات اور امکانی حوادث کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنے آپ کو ہلکان کیوں کریں، جبکہ ہمیں معلوم نہیں کہ:
کیا وہ دن آئے گا بھی یا نہیں؟
کیا وہ دن خوش کن ہوگا یا دکھ بھرا؟
مستقبل کے بارے میں ذہنی طور پر لڑائی لڑنا، غیب کی کتاب کھول کر متوقع پریشانیوں پر کراہنا، شرعی طور پر ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ یہ خواہشات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ عقلی طور پر، یہ عمل بالکل ایسا ہے جیسے آپ اپنے سائے سے کشتی لڑ رہے ہوں۔
شیطانی وسوسے اور فقر کا خوف
بہت سے لوگ مستقبل کو تاریک، بھوک، پیاس، بیماریوں اور مصیبتوں سے بھرا سمجھتے ہیں۔ یہ سب دراصل شیطانی وسوسے ہیں جو انسان کو اللہ کی رحمت اور فضل سے دور کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس وسوسے کی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
"شیطان تمہیں فقر کا خوف دلاتا ہے اور برائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔" (البقرہ ۲:۲٦۸)
جو لوگ یہ سوچ کر روتے ہیں کہ کل وہ بھوکے رہیں گے، یا ایک سال بعد بیمار پڑ جائیں گے، وہ دراصل اپنی زندگی اور رزق کو اپنے اختیار میں سمجھ رہے ہیں۔ جب عمر دوسرے (اللہ) کے اختیار میں ہے، تو پھر وہ انہونی کے بارے میں کیوں سوچے؟ غیر موجود چیز کے بارے میں مضطرب کیوں رہے؟
آج سے فرصت کہاں؟ حال کی قدر دانی
حقیقت یہ ہے کہ کل کو آنے دیجیے اور اس کی خبروں اور یلغاروں کے سلسلہ میں پوچھ تاچھ مت کیجیے۔ آج کا دن ھی ہماری توجہ کا مستحق ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تعلیم کا مفہوم ہے:
"جس نے صبح کی اور وہ تندرست ہے، اپنے گھر میں محفوظ ہے، اور اس کے پاس اس دن کی خوراک موجود ہے، تو گویا اس کے لیے پوری دنیا جمع کر دی گئی۔" (ترمذی، ابن ماجہ)
یہ حدیث حال کی قدر کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ لوگوں پر بڑے تعجب کی بات ہے کہ وہ کل کے تفکرات کو نقد (CASH) لے رہے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہیں کس دن ادا کریں گے؟ اس دن جس کا سورج بھی ابھی نہیں نکلا؟
لمبی امیدوں سے دوری اور عمل پر توجہ
لمبی اُمیدیں (تمنیات) جو صرف مستقبل کی خیالی تعمیرات پر مبنی ہوں، انسان کو حال کے عمل سے غافل کر دیتی ہیں۔ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ اس کام پر مرکوز کرے جو آج اور ابھی اس کے اختیار میں ہے:
مستقبل کی منصوبہ بندی ضرور کریں، مگر اس کی پریشانیوں کو اپنے حال پر حاوی نہ ہونے دیں۔ کل کی پریشانی کل کے آنے کے بعد ہی دیکھیں، آج کے دن کو اپنے موجودہ فرائض اور اللہ کی عبادت میں لگائیں۔




