Logon Ke Shukriye Aur Badle Ka Intezar Na Karen

 کسی کے شکریہ کا انتظار نہ کریں

انسان کی بنیادی فطرت: انکار اور کفرانِ نعمت

         اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا تاکہ وہ اس کا شکر ادا کرے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اکثر نے عبادت کی تو غیر اللہ کی اور شکر کیا تو غیر اللہ کا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انکار، زیادتی، جفا، اور کفرانِ نعمت انسانی فطرت کے ایک پہلو پر غالب ہیں۔



لہٰذا، جب آپ کسی کے ساتھ احسان یا بھلائی کریں، تو آپ کو قطعاً حیرانی نہیں ہونی چاہیے اگر لوگ:

  • آپ کے احسان کو فراموش کر دیں۔

  • آپ کی بھلائی کا انکار کر دیں۔

  • آپ کے حسن سلوک کو بھول جائیں۔

  • بلکہ آپ سے دشمنی شروع کر دیں اور احسان کے بدلے بغض و حسد رکھیں۔


دنیا کا کھلا دفتر: احسان فراموشی کی مثالیں

         دنیا کا کھلا دفتر ہمارے سامنے ایک واضح سبق ہے کہ احسان فراموشی کوئی نئی بات نہیں۔ اس میں ہمیں ایسے تمام باپوں کا قصہ پڑھنے کو ملتا ہے جنہوں نے بیٹے کو پالا، پوسا، کھلایا، پلایا، تعلیم و تربیت دی، اسے سلانے کے لیے خود جاگا، اور اسے کھلانے کے لیے خود بھوکا رہا، مگر جب یہی بیٹا جوان ہوا اور مستحکم ہوا، تو وہ باپ کے لیے کٹ کھنا کتا ثابت ہوا۔ اس نے استہزاء، نفرت، اور نافرمانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اپنے محسن کے لیے ایک عذاب بن کر رہ گیا۔

         یہ مثال واضح کرتی ہے کہ لوگوں سے بدلہ (Return) کی امید رکھنا مایوسی کا راستہ ہے۔ نیکی کرنے کے بعد، انسانی رویوں میں آنے والی تبدیلیوں پر آپ کا مضطرب ہونا یا رنجیدہ ہونا بے معنی ہے۔



اضطراب کیوں نہیں؟ ابدی انعام کا مژدہ

         وہ لوگ جن کے احسانات کم ظرفوں نے بھلا دیئے ہوں، انہیں مضطرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں یہ مژدہ ہے کہ وہ ایسی ہستی کے ابدی انعام کے مستحق بنیں گے جس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے۔


آپ کا مقصد لوگوں کی تعریف نہیں، بلکہ اللہ کی رضا ہے۔

نیکی کر دریا میں ڈال: اصل طریقہ کار

         ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ احسان اور حسن سلوک کرنا چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ "نیکی کر دریا میں ڈال" کے اصول کے عادی ہو جائیں۔ کفرانِ نعمت (ناشکری) پر رنجیدہ اور مایوس نہ ہوں، بلکہ بھلائی کے تمام کام لوجہ اللہ (صرف اللہ کی خاطر) کریں۔

اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ہر حال میں کامیاب ہوں گے۔

  1. آپ کو کسی کی ناشکری سے کوئی نقصان نہ ہوگا، بلکہ آپ کا اجر اللہ کے پاس محفوظ ہو گا۔

  2. آپ احسان کرنے والے ہوں گے۔

  3. آپ کا ہاتھ اونچا ہوگا جو کہ نچلے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔

اسی جذبے کی عکاسی قرآن مجید میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:


''ہم تمہیں اللہ کے لئے کھلاتے ہیں تم سے کسی بدلے اور شکریہ کی تمنا ہمیں نہیں''۔ (سورۃ الدھر، ۷۶:۹)

 

جب معاملہ اللہ کے ساتھ یہی ہے تو ہم کیا!

         عام لوگوں میں انکار اور ناشکری کی جبلت اس قدر غالب ہے کہ بہت سے باشعور لوگ بھی اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں۔ گویا انہوں نے ناشکروں کے سلسلے میں وحی الٰہی کی یہ بات نہ سنی:


"اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی بیٹھے بھی کھڑے بھی۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لیے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا، ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اسی طرح خوشنما بنا دیا گیا ہے" (سورۃ یونس، ۱۰:۱۲)

 

         لہٰذا آپ کو مضطرب نہیں ہونا چاہیے اگر کسی کم ظرف کو قلم دے دیں اور وہ اس سے آپ ہی کی ہجو (برائی) لکھنے لگے، یا اگر کسی جاہل کو ڈنڈا تھما دیا جس سے اس نے آپ ہی کا سر پھوڑ دیا۔


         جب انسان کی نفسیات یہی ہے اور یہی سلوک ان کا اپنے خالق اور رازق (اللہ) کے ساتھ ہے، تو پھر ہم انسانوں کے آپس کے معاملات میں کسی کی ناشکری پر حیران ہونے یا دل برداشتہ ہونے کی کیا بات ہے؟ آپ کا اجر اللہ کے ہاں مقرر ہے۔


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Search your Topic