بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ قضیہ شروع سے متنازعہ چلا آرہا ہے کہ دنیا کب بنی؟
اور انسانی کاو جود کب سے ہوا ؟
دورِ حاضر کے ماہرینِ ارضیات تو زمین کے وجود کو کروڑوں سال اور انسانی وجود کو لاکھوں سال پہلے قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف ایک قیاس ہے جس کی کوئی تاریخی روایت تائید نہیں کرتی۔ بر صغیر کے نامور مورخ مولانا حفظ الرحمن سیو ہا روی ؒ نے دنیا کی ابتداء کے متعلق اہل علم کے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ ابتدائے آفرینش چھ ہزار سال پہلے ہوئی ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں:
'' اس
مسئلے کا آخری فیصلہ مشکل ہے، اس لیے کہ ہمارے پاس علم کے وسائل بہت کم ہیں اور اس
حقیقت کے آخری فیصلے کے لیے ناکافی ہے، نیز آثار قدیمہ سے بھی اس کا کوئی یقینی
فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقوام عالم میں
چینی ، ہندی اور مصری سب سے قدیم قو میں ہیں اور مورخینِ فرنگی کا یہ دعوی ہے کہ
سطح زمین پر ان اقوام کا وجود تقریبا چھ اور دس ہزار سال کے درمیان ثابت ہے۔
نیز یہ امر بھی تسلیم شدہ
ہے کہ باو جود زبر دست تحقیقات کے کسی قوم کے حالات و واقعات کی تاریخ کا پتا سات
ہزار سال سے پہلے نہیں ملتا۔
حافظ ابن عساکرؒنے اس بارے میں متعدد اقوال نقل
کیے ہیں ۔ انہوں نے محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ تک ایک ہزار دو سو برس (۱۲۰۰) ،حضرت نوح ؑسے
حضرت ابراہیمؑ تک ایک ہزار بیالیس(۱۰۴۲)
برس، حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت موسیٰ ؑ تک
پانچ سو پینسٹھ(۵۶۵) برس ، حضرت موسیٰ ؑ سے حضرت داؤدؑ تک پانچ سو بہتر (۵۷۲)برس ، حضرت داؤ د ؑسے حضرت
عیسیٰ ؑ تک تیرہ سو چھپن (۱۳۵۶) برس اور حضرت عیسیٰ ؑسے حضرت محمد مصطفی ﷺ تک چھ
سو برس گزرے ہیں ۔ اس طرح حضرت آدمؑ کی کی
وفات سےحضرت محمدﷺ تک پانچ ہزار بیس سال
بنتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم ؑنے دنیا میں نو سو ساٹھ سال گزارے ہیں، انہیں شمار کیا
جائے تو حضرت آدم ؑکی دنیا میں آمد سے رسول اللہ صلی ﷺ کی ولادت با سعادت تک چھ
ہزارہ دوسو پچانوے (۶۲۹۵)سال بنتے ہیں ۔
(تاریخِ امت مسلمہ ۱/۸۲)

